Top 10 Insurance Options For International Students

  1. Health Insurance Options for International Students: Detailing different health insurance plans available, their coverage, and costs.
  2.  صبح کے وقت شبیر احمد اپنی گاڑی کا پہیا ٹھیک کررہا تھا کہ کسی نے اس کا کندھا ہلایا۔ اس نے گھوم کر دیکھا تو بڑے سے سر والا ایک بوناآدمی کھڑا تھا۔ وہ بولا:مجھےشبیر احمدکی تلاش ہے۔تم اس وقت اسی سے بات کررہے ہو۔شبیر احمدنے کہا۔

    لیکن میں کیسے یقین کروں کہ تم ہی شبیر احمد

    ہو؟ بونا اکڑکر بولا۔

    ”ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔“شبیر احمد تعجب سے بولا۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تاکہ گواہی دلواسکے، لیکن وہاں اور کوئی نہیں تھا۔ پھر اسے خیال آیا اور وہ مسکرا کر بولا: ”میں تمہیں اپنا شناختی کارڈ دکھاؤں؟“

    ”ہاں۔“ بونے نے خوش ہوکرکہا۔

    شبیر احمد نے کارڈ نکال کر دکھایا اور پوچھا کہ وہ اسے کیوں ڈھونڈ رہا تھا۔

    بونا رونی صورت بنا کر بولا:”رات ہمارے چچا فوت ہوگئے۔

    ان کی وصیت تھی کہ مرنے کے بعد انہیں آبائی گاؤں میں دفن کیا جائے۔ ہمیں ان کی میت لے کر جانی ہے۔“

    یہ سن کر شبیر احمد اچھل پڑا۔ وہ عرصہ دراز سے لوگوں کے گھروں کا سامان، غلے کے بورے اور پالتو جانور ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا آیا تھا، لیکن اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن اسے ایک میت بھی پہنچانی پڑے گی۔ پھر اسے کچھ خیال آیا اور وہ بولا: بھائی! تم اسپتال کی گاڑی کیوں نہیں لیتے؟

    بونا منہ بنا کر بولا: ”اسپتال میں صرف ایک گاڑی ہے اور وہ کل ہی کسی کی میت لے کر دوسرے قصبے گئی ہے۔

    ”اچھا مجبوری ہے۔ چلو ٹھیک ہے، ہم ابھی چلتے ہیں۔“ شبیر احمد نے پہیے کو دو تین ہتھوڑے لگائے اور وہاں سے چل دیا۔ بونا اسے راستہ بتاتا جارہا تھا۔

    کچھ دیر میں وہ مضافاتی علاقے میں پہنچ گئے۔ وہاں دور دور گھر بنے تھے۔ ایک بڑے مکان کے آگے بونے نے گاڑی رکوائی، ایسا لگتا تھا جیسے مکان بہت دنوں سے خالی پڑا ہے

     گھر کے احاطے میں پرانے درخت اور جھاڑیاں اُگی تھیں۔ شبیر احمد ان سے بچتا ہوا گاڑی عمارت کے اندر تک لے آیا۔ اسی دوران دو آدمی باہر آئے اور شبیر احمد کو غور سے دیکھنے لگے۔ ان میں ایک لمبا اور دوسرا موٹا تھا۔

    میت کہاں ہے؟شبیر احمد نے پوچھا۔
    ”آؤ، اندر آجاؤ۔“ بونا اُچھل کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بولا۔

    سب گھر میں داخل ہوئے۔ بلاقی کو کمرے میں ایک تابوت رکھا نظر آیا۔ اس نے آگے بڑھ کر اس میں جھانکا، لیکن وہ خالی تھا۔ وہ حیرت سے پلٹا۔ اسی دوران باہر سڑک پر کسی پولیس وین کے گزرنے کی آواز سنائی دی۔ اس کا سائرن بج رہا تھا۔ وہ تینوں اُچھل پڑے اور دیوار کے ساتھ چپک گئے۔ وین پھاٹک کے قریب آکر رک گئی۔ کچھ دیر رکی وہی پھر آگے بڑھ گئی۔

    جب وہ دور چلی گئی توشبیر احمد کو گڑبڑ کا احساس ہوا، وہ بولا:” دوستو! میرا خیال ہے آپ کی میت ابھی پہنچی نہیں، میں چلتا ہوں، کل اسی وقت آکر معلوم کرلوں گا۔‘

    وہ دروازے کی طرف بڑھا، لیکن لمبا آدمی کر اس کے سامنے آگیا اور پستول نکالتے ہوئے بولا: ”بڑے میاں! کہا چلے؟ میت ابھی آجاتی ہے۔

    اس نے بونے آدمی کو اشارہ کیا۔ وہ اکڑتا ہوا آگے بڑھا اور تابوت کا ڈھکنا کھول کر اس میں لیٹ گیا۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں تھیں۔ باقی دونوں نے فوراَ۔ رونا شروع کردیا: ”ہائے! ہمارے چچا فوت ہوگئے۔“

    وہ اچھی ادا کاری رکرہے تھے۔ بلاقی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اچانک لمبے آدمی نے پستول اس کے سینے پر رکھ دیا اوربولا: ”بڑے میاں! سنو ہمیں یہ تابوت اس قصبے سے نکالنا ہے۔

    تم ہماری مدد کرو گے ورنہ․․․․․“ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے تیور اچھے نظر نہیں آرہے تھے۔

    ”لیکن تم ایسا کیوں کررہے ہو؟“ شبیر احمد نے پوچھا۔

    لمبے آدمی نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا اور چیخ کربولا: ”جلدی کرو، تابوت گاڑی میں رکھو۔ ہم فوراََ یہاں سے نکل رہے ہیں۔“

    شبیر احمد کو مجبوراََ اس کا حکم ماننا پڑا۔ قصبے سے نکل کر کچھ دور چلنے کے بعد انہیں پولیس چوکی نظر آئی۔ لمبے اور موٹے دونوں آدمیوں نے اپنے بال بکھیرے، آنکھیں رگڑیں اور رونی صورت بنا کر بیٹھ گئے۔

    وہاں کئی گاڑیاں قطار میں لگی تھیں شبیر احمد نے بھی گاڑی روک دی۔ایک پولیس اہلکار ان کی طرف آیا۔ قریب آکر وہ مسکرایا چچا شبیر احمد! کہاں چلے؟وہ شبیر احمد کے ایک پڑوسی کا لڑکا تھا اور اس سے اچھی طرح واقف تھا۔

    شبیر احمد بولا: بیٹا! ان کا ایک عزیز فوت ہوگیا ہے، اسے گاؤں لے جارہے ہیں۔

    موٹے اور لمبے دونوں آدمیوں نے رونا شروع کردیا تھا۔ اہلکار نے پچھلے حصے پر ایک اچٹتی نظر ڈالی اور بولا: چچا! ٹھیک ہے، تمہیں دیر ہورہی ہوگی، تم ادھر سے نکل جاؤ۔

    اس نے راستہ بنانے کیلئے سیٹی بجائی۔

    شبیر احمد دل میں سوچ رہا تھا کہ یہاں بھی جان پہچان نکل آئی۔ ورنہ دوسرا کوئی اتنی آسانی سے جانے نہیں دیتا۔

    کچھ دور جاکر موٹے اور لمبے دونوں آدمیوں نے خوشی سے ہاتھوں پر ہاتھ مارے اور ہنسنے لگے۔ لمبا آدمی بولا: ”واہ واہ، میان شبیر احمد! ہمارا فیصلہ درست تھا تم اس قصبے میں کسی کے چچا، کسی کے خالو اور کسی کے ماموں ہو، ہم نے اسی لئے تمہاری گاڑی لی تھی۔

    شبیر احمد سوچ رہا تھاکہ ان چالاک لوگوں نے اس کی شہرت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس دوران پیچھے کھٹ پٹ ہوئی اور بونا آدمی تابوت میں سے نکل آیا۔ لمبے آدمی نے ڈانٹ کر  اسے دوبارہ لیٹنے کو کہا، بونا پھر لیٹ گیا۔ وہ چلتے رہے۔دوپہر تک وہ ایک اور قصبے کے نزدیک جا پہنچے۔ وہاں بھی گاڑیوں کی تلاشی  جاری تھی۔ایک اہلکار ان کی طرف آیا۔ شبیر احمد نے وہی بات دہرائی۔ لمبے اور موٹے آدمی کے آنسو بہہ رہے تھے۔ اہلکار نے پچھلا دورازہ کھولا اور تابوت کا معائنہ کرنے لگا۔ پھر آگے آیا او بولا: ”مرنے والے کا ڈیتھ سرٹیفیکٹ دکھاؤ۔شبیر احمد لمبے کی طرف منہ کر کے بولا: ہاں بھئی سرٹیفیکیٹ دکھاؤ۔لمبا آدمی ہکلا کر موٹے آدمی سے بولا: ہاں․․․․․ہاں سرٹیفیکیٹ نکالوں، کہاں ہے؟موٹے آدمی نے بے چارگی سے اسے دیکھا اور اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا، آخر ایک پرچا اس کے ہاتھ لگ گیا: ہاں یہ ہے سرٹیفیکٹ۔اس نے پرچاشبیر احمد کو دیا اور شبیر احمد نے اہلکار کو پکڑا دیا۔

    پرچے پر اسپتال کا نشان نظر آرہا تھا اور ڈاکٹری لکھائی میں کچھ لکھا تھا۔اہلکار اسے پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسی دوران پیچھے والی دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں۔ بہت زور سے آواز ہوئی۔ بہت سے لوگ چیخنے لگے، شاید کوئی زخمی ہوگیا تھا۔ اہلکار نے پرچاشبیر احمد کو پکڑایا اور آگے بڑھ گیا۔کیا ہم جائیں؟“ لمبا آدمی زور سے بولا۔ہاں جاؤ۔ اہلکار نے جواب دیا۔شبیر احمد نے ایک گہری سانس لے کر گاڑی آگے بڑھادی۔ کچھ دور تک وہ خاموشی سے چلتے رہے، پھر لمبا آدمی موٹے کو ہاتھ مار کر بولا:ارے بے وقوف! یہ پرچا تیرے پاس کہاں سے آیا؟موٹا آدمی بولا: باس!تمہیں پتا ہے، پچھلے دنوں مجھے کتنی کھانسی ہورہی تھی۔تم نے ہی تو مجھے دوا لانے اسپتال بھیجا تھا، تاکہ ہم․․․․․لمبے آدمی نے فوراََ اسے کہنی ماری اور بولا:” چپ کر بے وقوف!“پھر وہ زور زور سے ہنسنے لگا: ”اچھا تو یہ کھانسی کی دوا کا نسخہ تھا۔“وہ ہنسے جارہا تھا، موٹا آدمی بھی قہقہے لگا رہا تھا۔ دونوں کھانسی کی مصنوعی آوازیں نکال رہے تھے۔ بونا بھی باہر آگیا تھا۔گاڑی تیزی سے دوڑ رہی تھی۔ اب سہ پہر ہوگئی تھی۔  وہ جس علاقے سے گزر رہے تھے اس کے ایک طرف گھنا جنگل اور دوسری طرف ٹیلوں، جھاڑیوں اور گڑھوں والا علاقہ تھا۔  شبیر احمد کسی سوچ میں ڈوبا تھا۔ اس کی نگاہیں اطراف کا جائزہ بھی لے رہی تھیں۔ دور ایک قصبے کے آثار نظر آنے لگے۔ آخر ایک جگہ شبیر احمد نے گاڑی روک دی اور بولا: ”میں تمہیں ایک خطرے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔اب جو قصبہ آرہا ہے، وہ سرحدی علاقے میں ہے۔ وہاں بہت سخت تلاشی ہوتی ہے، میرا خیال ہے تم پکڑے جاؤ گے

    ۔لمبا آدمی سوچ میں پڑگیا پھر بولا: ”ہمیں کیا کرنا چاہئے؟اس کا حل یہ ہے کہ ہم کوئی دوسرا راستہ استعمال کریں اور قصبے سے آگے نکل جائیں،شبیر احمد بولا۔
    ہاں ، ہم میدان میں سے گزر سکتے ہیں۔لمبا آدمی جلدی سے بولا۔نہیں، میدان ہموار نہیں ہے، وہاں گاڑی الٹ جائے گی۔ ہمیں جنگل کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ شبیر احمد نے کہا۔لیکن جنگل تو بہت گھنا ہے، اس میں کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔میںایک راستہ جانتا ہوں۔ شبیر احمد نے کہا۔اسی دوران آسمان پر گہرے بادل اُمڈ آئے تھے اور سورج بادلوں میں چھپ گیا۔آخر انہیں شبیر احمد کی بات ماننی پڑی۔ شبیر احمد نے گاڑی کا رخ موڑا اور پیچھے آکر ایک تنگ راستے پرگاڑی ڈال دی۔ ایک لمحے کیلئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ نظرا ٓئی تھی جو اس نے فوراََ چھپا لی تھی۔ راستہ بہت خراب تھا۔ جگہ جگہ جھاڑیاں اور درخت اُگے تھے۔ گاڑی بار بار رخ بدل رہی تھی۔ لمبا آدمی فکر مندی سے بولا: ہم کہاں جارہے ہیں؟ کچھ پتا نہیں چل رہا۔اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ سورج بادلوں میں چھپا تھا، سمت کا کوئی اندازہ نہیں ہورہا تھا۔ گاڑی چلتی رہی۔ تینوں پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ آخر لمبا آدمی چلایا: روکو! فوراََ بگھی روکوشبیر احمد نے گاڑی روک دی۔ لمبا آدمی غراکر بولا: تم ہمیں بھٹکا رہے ہو۔ کچھ پتا نہیں چل رہا ہے کہ ہمارا رخ کدھر ہے؟شبیر احمد اطمینان سے بولا: فکر نہ کرو ہم وہی جارہے ہیں، جہاں ہمیں جانا چاہیے۔نہیں ، میں تم پر بھروسا نہیں کرسکتا۔ اس نے شبیر احمد کو ہٹایا اور خود گاڑی چلانے لگا،  ایک جگہ پہیا کسی درخت کی گری ہوئی شاخ پر چڑھا اورگاڑی الٹتے الٹتے بچی تو لمبے آدمی کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ گاڑی شبیر احمد کو ہی چلانے دی جائے۔ شبیر احمد پھر گاڑی چلانے لگا۔ اچانک ایک موڑ مڑنے پر سامنے ایک پھاٹک نظر آیا۔گاڑی کی رفتا تیز ہوگئی تھی۔ وہ پھاٹک سے ٹکرائی۔ وہ فوراََ کھل گیا۔ گاڑی دوڑتی رہی۔ لمبا آدمی چیخا: یہ ہم کہا جارہے ہیں۔؟شبیر احمد نے کہا: معلوم نہیں شاید میں راستہ بھول گیا ہوں۔کچھ دور ایک عمارت نظر آرہی تھی۔ شبیر احمد نے گاڑی وہاں جاکر روک دی۔ دوڑتے قدموں کی آوازیں سنائی دیں اور کئی پولیس اہلکار نظر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا۔بونا آدمی چلایا: ہم پھنس گئے ہیں، اس نے ہمیں پھنسادیا۔لمبے آدمی نے غضب ناک ہو کر ہوا میں دو فائر کیے۔ اہلکار درختوں کے پیچھے چھپ گئے۔ لمبے آدمی نے شبیر احمدکو ہٹا کر گاڑی خود چلانی شروع کردی۔گاڑی تیزی سے دوڑ رہی تھی۔ اچانک وہ ایک گڑھے پر سے گزری اور ٹیڑھی ہو کر رک گئی۔ سب لڑھک کر باہر جاگرے۔ شبیر احمد کی ٹانگ پر سخت چوٹ آئی اور وہ تکلیف سے کراہنے لگا۔لمبے آدمی کا پستول شبیر احمد کے آگے گرا تھا۔ وہ اٹھانے کیلئے جھپٹا، لیکن شبیر احمد نے فوراََ اٹھا کر دور پھینک دیا۔ اسی دوران پولیس اہلکار وہاں آگئے اور تینوں کو پکڑلیا۔جلد ہی وہ عمارت میں بیٹھے تھے۔ وہاں سب شبیر احمد کو پہچانتے تھے۔ وہ پولیس ٹریننگ سینٹر تھا۔ شبیر احمد ہر مہینے وہاں کھانے پینے کا سامان پہنچایا کرتا تھا۔ اس نے تمام واقعہ سینٹر کے نگراں کو سنایا اور بولاجناب! میرا خیال ہے کہ تابوت کی نچلی تہ دہری ہے۔اس میں کوئی قیمتی چیز چھپائی گئی ہےتینوں لٹیرے غصیلی نظروں سےشبیر احمد کو گھور رہے تھے۔ نگراں نے آدمی سے آری منگوائی۔ وہ آری لایا اور تابوت کاٹنا شروع کیا۔ شبیر احمدبولا: ”نگراں صاحب! آپ کو پتا ہے میسم ٹاؤن کے علاقے سے کیا کیا چیزیں باہر جاتی ہیں؟

    نگراں نے حیرت سے اسے دیکھا اور بولا: ”بہت سی چیزیں مثلاََ مرغیاں، سبزیاں اور ہاں گنے بھی۔شبیر احمد کی نظریں تابوت پر جمی تھیں وہ بولا: ہاں ایک چیز اور بھی ہوسکتی ہے، مثلاََ کوئی قیمتی چیز جسے عجائب گھر سے چرایا گیا ہو۔اسی وقت تابوت کٹ گیا اور اخباری کاغذوں میں لپٹی ہوئی کوئی چیز نظر آئی۔ کاغذ ہٹانے پر اندر سے مورتی نکلی ۔ وہ سونے کی بنی ہوئی مورتی تھی۔ سب حیران رہ گئے۔ تینوں لٹیروں کو گرفتار کر کے ایک پولیس وین میں قصبے روانہ کردیا گیا۔شبیر احمد کے ساتھ بھی ایک اہلکار گیا تھا۔ شبیر احمد کی ٹانگ میں بہت تکلیف تھی۔ اسے اسپتال لے جایا گیا، جہاں معائنے کے بعد اس کی ٹانگ پٹیوں میں جکڑدی گئی اور ایک مہینے آرام کر نے کا کہا گیا۔ شبیر احمد کچھ پریشان نظر آرہا تھا۔ اہلکار نے اسے گھر چھوڑا اور واپس چلا گیا۔اگلے دن میوزیم سے کچھ لوگ اس سے ملنے آئے۔ انہوں نے شبیر احمد کا شکریہ ادا کیا اور اس کی بہادری کی تعریف کی۔پھر انہوں نے جیب سے ایک موٹا لفافہ نکالا اور بولے: ”میاں شبیر احمد! ہمارے ڈائریکٹر صاحب نے یہ رقم تمہیں انعام میں بھجوائی ہے۔“شبیر احمد بولا: ”جناب! انعام کی ضرورت نہیں یہ تو ہر اچھے شہری کی ذمہ داری ہے کہ مجرموں پر نظر رکھے۔“وہ ہنس کو بولے: ” ہاں اور اچھے شہری کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، تاکہ وہ خوب آرام کرے، کھائیے پیے اور صحت یاب ہوکر ایک بار پھر چوروں اور لٹیروں کو پکڑ سکے۔“سب زور زور سے ہنسنے لگے۔

       

  3. Comparing Student Travel Insurance Policies: A comprehensive comparison of travel insurance plans tailored for international students.
  4. Understanding Visa Requirements and Insurance: Explaining how insurance requirements vary based on different types of student visas.
  5. Tips for Choosing the Best Insurance Plan as an International Student: Guidance on factors to consider when selecting an insurance plan, such as coverage limits, deductibles, and network providers.
  6. Insurance Coverage for COVID-19 for International Students: Specifics on how insurance plans cover COVID-19-related medical expenses for international students.
  7. Dental and Vision Insurance Options for International Students: Exploring additional insurance options beyond basic health coverage.
  8. Mental Health Coverage in Student Insurance Plans: Detailing coverage for mental health services under different insurance plans.
  9. Insurance Requirements for Practical Training and Internships: Explaining insurance needs during internships or practical training periods.
  10. Insurance for Dependents of International Students: Coverage options and requirements for family members accompanying international students.
  11. Emergency Medical Evacuation Insurance: Exploring the importance of evacuation insurance and its availability to international students.

These topics are not only relevant but also likely to attract advertisers in the insurance industry due to the potential for high CPC rates. It’s important to research and update these topics regularly to reflect current trends and regulations in insurance and international student affairs.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *