Introduction: Health insurance plays a pivotal role in ensuring access to quality healthcare services while mitigating financial risks associated with medical expenses. Across the globe, various health insurance models exist, each with its unique features, strengths, and challenges. This comparative analysis aims to dissect and evaluate some prominent health insurance models, shedding light on their mechanisms, effectiveness, and applicability in different socio-economic contexts.
ج میرے بیٹے کی شادی تھی میں بہت خوش تھی ہر ماں کا ارمان ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا بیا جائے گھر بہو آئے اور گھر خوشیوں سے بھر جائے خیر اب تو میری بری ہڈیوں میں اتنی جان بھی نہیں تھی کہ میں گھر کے کام کاج کر سکتی اس لیے میں نے اپنے بیٹے کے لیے پیاری سی لڑکی چنی تھی سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ میری بہو بہت زیادہ جہیز اپنے ساتھ لائی تھی اور ساتھ ایک نوکرانی بھی لائی تھی پہلے پہل تو مجھے حیرت ہوئی اور تھوڑا عجیب بھی لگا کہ بہو نوکرانی ہی لے آئی ہے جبکہ کام کے لیے نوکرانی تو میں بھی رکھ سکتی تھی لیکن مجھے نوکرانیوں کے کام پسند ہی نہیں آتے تھے میں نے من ہی من سوچا کہ لیا ہفتہ دو ہفتہ یہاں رہے پھر اس کو چلتا کروں گی
لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا بلقیس میرے گھر میں اپنی جگہ بناتی گئی نہ جانے کیا تھا جو مجھے اس کی طرف کھینچتا تھاجہاں تک میری بہو کی بات تھی تو اس کو میں نے پہلی بار پالر میں دیکھا تھا جہاں میں اپنی بھانجی کے ساتھ گئی تھی لیکن جب میں نے پارلر والی لڑکی کو دیکھا تو مجھے وہ بہت اچھی لگی تھی اس کی ماں بھی اس کے ساتھ ہوتی تھی باتوں باتوں میں میں نے ان سے رشتے کی بات کر لی اور یہ سلسلہ نکل پڑا اب میں اپنے اس فیصلے سے مطمئن تھی میری بہو نور بہت اچھی تھی اور کام والی بلقیس بھی لیکن بہو کے ساتھ جو ملازمہ آئی تھی وہ ہر وقت نقاب میں رہتی تھی یہ بات کافی عجیب تھی خیر میں خاموش ہی رہی میں اپنا کچن کا کام کسی کو کرنے نہیں دیا کرتی تھی لیکن وہ لڑکی یہاں بھی مجھے مات دے گئی تھی وہ بہت ہی پاکیزہ عبادت گزار تھی میں نے اسے دل سے خوش ہو کر کھانا بنانے کا کام بھی سونپ دیا تھا اب میں بہت سکون میں تھی وہ لڑکی نہ صرف گھر کے کام کرتی بلکہ میری بھی اتنی خدمت کرتی کہ میں حیران رہ جاتی لیکن آج تک میں نے اس کا چہرہ نہ دیکھا تھا کیونکہ وہ ہر وقت نقاب کیے رہتی تھی
میں نے کئی بار سمجھایا کہ گھر میں تو نقاب اتار دویہاں ہوتا ہی کون تھا ہم ساس بہو ہوتے تھے باقی بیٹا صبح سویرے ہی کام پر نکل جاتا تو شام کو لوٹتا تھا مگر میری بات پہ وہ بہت خوفزدہ ہو جاتی اس کے ہاتھ بھی کانپنے لگتے تھے میری بہو آگئی اور اس کے سامنے کھڑی ہو گئی امی جان اس کو کچھ نہ کہیں یہ اپنا چہرہ کسی کو نہیں دکھاتی بہت ہی پردے دار ہے اس کو پردے میں ہی سکون ملتا ہے تو آپ اسے نہ کہا کریں بلقیس کے جانے کے بعد میری بہو میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور آہستہ سے بولی امی جان کھانا لذیذ بناتی ہے میں نے دیکھا ہے رات گئے تک آپ کو دباتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری فرمائش پر بدک جائے اور کام ہی چھوڑ کر چلی جائے پھر آج کل کہاں ملتی ہیں ایسی ملازمائیں بہو کی بات پہ میں خاموش ہو گئی تھی یوں وقت گزرتا گیا ایک رات میری آنکھ کھلی اور میں پانی لینے کچن کی طرف جانے لگی میں نے دیکھا کہ بلقیس کچن کے ساتھ والے کمرے میں تہجد کی نماز ادا کر رہی ہے میری نظریں اب بلقیس پر تھیں میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ کتنی عبادت گزار ہے وہ نماز میں مگن تھی وہ اس رخ بیٹھی تھی کہ اس کا چہرہ دوسری طرف تھا لیکن میں جانتی تھی کہ اس وقت اس نے نقاب نہیں کیا ہوا تھا میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں کھڑی رہی کہ شاید اس کی ایک جھلک مجھے دکھائی دےاور اچانک جب اس نے سلام پھیرا تو اس کے چہرے کا رخ میری جانب ہو گیا تھا جیسے ہی اس کے چہرے پر میری نظر پڑی میں گرتے گرتے بچی میری روح تک لرز گئی
یا اللہ یہ تو مجھے اچانک سے کھانسی کا دورہ پڑا اور میں نے جلدی سے پانی کا گلاس منہ سے لگا لیا لیکن تب تک بلقیس کی نظر مجھ پر پڑ چکی تھی وہ بھی گھبرا کر اٹھ گئی تھی اور کمرے کے تاریکی گوشے کی جانب بھاگ کر خود کو میری نظروں سے چھپانے کی کوشش کرنے لگی تھی لیکن میں اس کو تب تک دیکھ چکی تھی تب سے مجھے بہت بے چینی ہو رہی تھی ساری رات میں نے کانٹوں پر گزاری تھی ساری رات میں سو نہ سکی یہ سب آخر کیا تھا ایسا کیسے ہو سکتا ہے مجھے صبح کا بے صبری سے انتظار تھا میں بس چاہتی تھی کہ بہو کے روبرو کھڑی ہو کر اس سے سارا سچ اگلا لوں لیکن میں چاہتی تھی کہ ایک بار میرا بیٹا آفس چلا جائے تو میں بہو سے پوچھوں کہ یہ کیا ماجرہ ہے اگر میرے بیٹے کو اس بات کی بھنک بھی پڑ جاتی تو وہ اسے اسی وقت طلاق دے دیتا طلاق کیا شاید وہ تیش میں آ کر نور کو جان سے ہی مار دیتا بات ہی اتنی بڑی تھی کہ کچھ بھی ہو سکتا تھا میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے بیٹے کا گھر اجر جائے میں نور کو شک کا فائدہ دے کر اسے سچ جاننا چاہتی تھی لیکن اتنا تو میں سوچ ہی چکی تھی کہ اگر اس کا رتی برابر بھی قصور نکلا تو اس کو طلاق میں خود دلواؤں گی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر قصور کس کا ہے میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا میری بہو نور اٹھ چکی تھی اس نے ناشتہ کر لیا تھا اور اب وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی میرا بیٹا اپنے آفس چلا گیا تھا یہی وقت تھا جاننے کا میں فورا بہو کے کمرے کی طرف گئی دستک دے کر اندر چلی گئی بہو اپنی الماری سیٹ کر رہی تھی وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگی میں نے کمرہ لاک کیا اور اس کے بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس سے پوچھا کہ یہ ماجرہ آخر کیا ہے میرے گھر میں کیسا کھیل تم دونوں کھیل رہی ہو
بلقیس کون ہے بلقیس کا آخر کیا راز ہے آج میں سچ جان کر رہوں گی اگر تم نے مجھے سچ نہ بتایا تو میری بات پہ نور میرے قدموں میں گر گئی امی جان مجھے معاف کر دیں اس میں میرا کوئی قصور نہیں آخر یہ سب کیا ماجرا ہے مجھے پوری بات بتاؤ وہ میری بات سن کر بہت گھبرا گئی امی میں آپ کو سب بتاتی ہوں آپ پہلے وعدہ کریں کہ قاسم کو اس کا علم نہیں ہونے دیں گی ورنہ دیکھو نور بیٹا مجھے اب سچ بتا دو میں سچ جانے کے بعد ہی فیصلہ کروں گی وہ مجھے اپنا قصہ سنانے لگی اس نے بتایا کہ میں نور کھاتے پیتے گھر سے تعلق رکھتی تھی ہم تین بہن بھائی تھے بڑی بہن کی شادی تین سال پہلے ہو گئی تھی تب سے وہ باہر ملک میں رہتی تھی اس کے بعد میں اور میرا چھوٹا بھائی فہد میں کالج جاتی تھی فہد سکول ہم سب بہت خوش تھے کہ اچانک پاپا کو بزنس میں لاس ہو گیا اور ہمارے مالی حالات بہت خراب ہو گئے میرا کالج چھوٹ گیا اور فیس نہ دینے کی وجہ سے فہد کو بھی سکول سے نکال دیا گیا پاپا قرضے میں ڈوب گئے تھے
کسی رشتہ دار نے تو پوچھا نہیں یہ بات بالکل سچ ہے کہ سب تب تک ہی ساتھ دیتے ہیں جب تک آپ کے پاس پیسہ ہوتا ہے پاپا نے اپنا قرضہ اتارنے کے لیے اپنا گھر بیچ دیا کچھ پیسے بچ گئے اس سے انہوں نے ایک چھوٹا سا مکان کڑائے پر لے لیا اور اس کا چھ مہینے کا ایڈوانس دے دیا باقی پیسوں کا دو مہینے کا راشن ڈلوایا اب بس چند ہزار روپے ہی رہ گئے تھے وہ بھی کب تک چلتے میرے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی کہ میں کوئی نوکری کرتی میں نے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا لیکن وہ چند روپے کافی نہیں تھے پاپا دل کے مریض تھے اور حالات کے بوجھ نے اب تو ان کو نڈھال کر دیا تھا بڑی بہن کو ہم نے کچھ نہیں بتایا تھا کہ وہ پریشان نہ ہو ایک دن میں کسی سکول میں انٹرویو دینے گئی مگر وہاں بھی مایوسی ہوئی کیونکہ میری تعلیم کم تھی تیز چڑچلاتی دھوپ میں بس سٹاپ کے بینچ پر بیٹھ کر بس کا انتظار کر رہی تھی اور مجھے اپنی بے بسی پر رونا آگیا آنسو میرے گالوں پر پھسلتے جا رہے تھے کہ کسی نے پوچھا کہ میں کیوں رو رہی ہوں میں نے چونک کر سر اٹھایا تو میں بہت ڈر گئی مجھ پہ خوف طاری ہو گیا تھا کیونکہ وہ ایک اجنبی شخص تھا اور ہمیشہ مجھے یہاں پر بیٹھا دیکھ کر گھورتا رہتا تھا مگر آج اس کی اتنی جرات دیکھ کر مجھے بہت خوف آیا تھا
میں وہاں سے اٹھ کے دوسری جگہ سمٹ کے بیٹھ گئی مگر وہ وہاں بھی آگیا اور مجھ سے رونے کی وجہ پوچھنے لگا میں نے اسے کہا کہ وہ یہاں سے چلا جائے اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دے لیکن وہ نہیں گیا اور کہنے لگا کہ میں اگر چاہوں تو میری مدد کر سکتا ہے میں نے دل میں سوچا کہ یہ مدد کیا کرے گا میری یہ بیچارے تو خود مانگ کر پیٹ پالتے ہیں میں نے اسے کہا کہ مجھے اس کی کوئی مدد نہیں چاہیے اور وہ جائے یہاں سے لیکن وہ نہ مانا اور تو نہ چار میں نے بتایا کہ میرے حالات اچھے نہیں کوئی ڈھنگ کی نوکری بھی نہیں ملتی یہ سن کر اس نے اپنا مشورہ دیا کہ میں اپنا پارلر کیوں نہیں کھول لیتی اس کی بات سن کر ہنسی کہ اس کے لیے لاکھوں روپے چاہیے اور میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں کہ کسی پارلر میں کورس کر سکوں سیکھنے کے لیے بھی پیسے لگتے ہیں یہ سن کر اس نے اپنی جیب سے کاغذ اور قلم نکالا اور کاغذ پہ کچھ لکھا کاغذ میری طرح بڑھاتے ہوئے بولا یہ میرا نمبر ہے تم سوچ لو پھر مجھے کال کر لینا میں تمہیں پیسے لا دوں گا میں نے پرچی اس کے ہاتھ سے لے لی اور وہاں سے اٹھ کر میں اس واقعے کو بھول گئی رات کو جب میں بستر پہ لیٹی تو اچانک سے میرے ذہن میں جھمکا ہوا اور دن والا سارا واقعہ مجھے یاد آگیا
کہ کیسے میں بس سٹاپ پر بیٹھی رو رہی تھی کہ اچانک وہاں وہ اجنبی شخص آگیا میں سوچ رہی تھی کہ اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا جو وہ مجھے دینے کا کہہ رہا تھا اور اگر ہیں بھی تو وہ مجھے کیوں دے گا آج کل تو کسی کو کوئی ادھار تک نہیں دیتا اس کی باتوں پر مجھے اعتبار تو نہیں آیا تھا مگر پھر نہ جانے کیا سوچ کر میں نے پرس سے وہ چٹی نکالی جس میں اس نے اپنا نمبر لکھ دیا تھا اور وہ اپنے موبائل میں اس کا نمبر اجنبی مددگار کے نام سے سیو کر دیا اور سو گئی اس واقعے کو کافی دن گزر گئے تھے گھر میں دو وقت کی روٹی کھانی مشکل ہو گئی تھی اب تو وہ ٹیوشنز بھی چھوٹ گئے تھے مجھے اور مما کو فہد کے سکول کی بہت فکر ہو رہی تھی کتنے مہینے ہو گئے تھے وہ گھر پر اداس بیٹھا اپنا سکول بیگ کو کھول کر گھنٹوں انہیں دیکھتا رہتا اس کے سکول کا بہت حرج ہو رہا تھا اس دن میں اپنی ایک دوست کے گھر گئی بات کرنے کے مجھے کسی سکول میں اچھی تنخواہ دے کسی سے بات کر کے میں وہاں سے نکلی تو راستے میں ایک بیوٹی پارلر تھا اسے دیکھ کر مجھے اس اجنبی کی بات یاد آگئی میں اندر چلی گئی اور کہا کہ میں سیکھنا چاہتی ہوں پارلر کی اونر نے کہا کہ وہ کورس کروانے کا ایک لاکھ روپیہ لیتی ہیں
اور ایک سال کا کورس ہے جس میں وہ مجھے سب کچھ سکھا دیں گی یہ سن کر میں مایوس ہو کر وہاں سے یہ کہہ کر نکلی کہ کچھ دن بعد بتاتی ہوں آپ کو لیکن میں ایک لاکھ کہاں سے لاتی میرے پاس تو 10 ہزار روپے بھی نہیں تھے خیر میں گھر آگئی اور کچھ دیر بعد اس اجنبی کا نمبر ملایا اس نے میرا فون کاٹ دیا اور خود کال کی اور پوچھا کہ کیا میں وہی لڑکی ہوں جو اسے بس سٹاپ پر ملی تھی مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے میری آواز سنے بغیر مجھے کیسے پہچانا مگر میں نے اس پہ کچھ ظاہر کیے بنا ہی کہا ہاں میں وہی لڑکی ہوں جو اسے بس سٹاپ پر ملی تھی اور پوچھا کہ وہ کہاں سے مجھے پیسے دے گا جب کہ وہ خود بہت غریب ہے یہ بات سن کر وہ ہنس دیا اور کہا کہ تمہیں پیسوں سے مطلب ہے وہ تمہیں مل جائیں گے بولو کتنے پیسے چاہیے میں نے کہا کہ مجھے ایک لاکھ روپیہ چاہیے پارلر کے کورس کے لیے اور میں یہ پیسے اسے لوٹا دوں گی اس نے مجھے اسی بس سٹاپ پر بلایا اور میں نے حامی بھر لی اگلے دن میں وہاں پہنچی تو وہ پہلے سے موجود تھا اس نے میرے ہاتھ میں لفافہ دیا اور خاموشی سے واپس چلا گیا میں نے وہ لفافہ اپنے پرس میں رکھ لیا اور واپس گھر آگئ کمرے میں آ کر دروازہ بند کر کے میں نے لفافہ کھولا تو میری حیرت کی انتہا رہی جب میں نے دیکھا کہ لفافے میں دو لاکھ روپے پڑے تھے
میں اس سے وعدہ کر بیٹھی کہ زندگی میں اسے کبھی بھی میری ضرورت پڑے گی تو میں اس کی مدد ضرور کروں گی وہ مجھے اپنی بہن سمجھے مجھے نہیں معلوم تھا کہ انجانے میں مجھ سے کتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے میں نے فون رکھ دیا دوسرے دن پارلر میں پیسے جمع کروائے اور پارلر جوائن کر لیا دن اسی طرح گزرتے جا رہے تھے میں نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور فہد کو سکول میں داخل کروا دیا اسی طرح سال پورا ہو گیا پالر سے مجھے کورس سرٹیفیکیٹ بھی مل گیا اب میں اپنا پارلر کھولنا چاہتی تھی میں نے اجنبی مددگار کو ایک بار پھر سے کہا تو اس نے مجھے لفافہ دیا اور کہا کہ میرے ساتھ چلو میں پریشان ہو گئی تو بولا میں نے تمہارے لیے پارلردیکھا ہے جو کوئی کرائے پر دے رہا ہے میں اس کے ساتھ چلی گئی اور سارے معاملات طے کیے اور گھر آگئی دوسرے دن سے پالر پر بیٹھ گئ اور پارلر اوپن کا بورڈ لگا دیا اپنی مدد کے لیے ایک لڑکی بھی رکھ لی پارلر چل پڑا تھا گھر کے حالات ٹھیک ہونے لگے تھے میں تو اسے اپنا محسن سمجھ بیٹھی تھی اور دن رات اسے دعائیں دیتی تھی خواتین جوک در جوک آتی ان میں سے ایک خاتون آپ بھی تھی جنہوں نے مجھے پسند کیا اور مجھے اپنی بہو بنا لیا میری شادی کی تیاری ہو رہی تھی کہ ایک دن اجنبی مددگار میرے پاس آیا اور بولا کہ اسے پیسے نہیں چاہیے یوں اس نے مجھے میری ہی نادانی میں کیا ہوا وعدہ یاد کروایا جو میں نے اسے دو لاکھ روپوں کے بدلے کیا تھا میں اس کی بات سن کر کافی پریشان ہو گئی تھی کہ نہ جانے اب وہ مجھ سے کیا مانگ لے لیکن میں نے دل کرا کر کے کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو
لیکن اس کی بات سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے اس نے مجھ سے کہا کہ تم مجھے اپنے ساتھ اپنے جہیز میں لے کر جاؤ میں حیران ہوئی مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے تو وہ بولا میں تمہیں بتاتا ہوں تم مجھے اپنے ساتھ کام والی بنا کر لے جاؤ گی میں ہر وقت خود کو ڈھانپ کر رکھوں گا کسی کو خبر تک نہ ہوگی کہ میں لڑکی نہیں بلکہ لڑکا ہوں اس کی بات سن کر مجھے غصہ آنے لگا تھا تب ہی تو میں چلائی تھی اور میں یہ سب کیوں کروں گی میں مانتی ہوں تم میرے مددگار ہو میں تمہارے احسان مند بھی ہوں مگر میں اپنے ہونے والے شوہر کو اتنا بڑا دھوکا ہرگز نہیں دے سکتی میں کیوں غیر مرد کو اپنے گھر لے جاؤں مجھے کیا معلوم تم کسی ارادے اور کیسی نیت کے ساتھ جانا چاہتے ہو میں ایسا نہیں کروں گی میں نے مڑ کر اپنی تجوری کو کھولا جو نوٹوں سے بھرا پڑا تھا میں نے دو لاکھ پہلے سے ہی علیحدہ کر کے ایک لفافے میں ڈال دیے تھے کہ نہ جانے کب میرے مددگار کو ان پیسوں کی ضرورت پڑ جائے میں نے وہ لفافہ اس کی جانب بڑھا دیا اور کہا کہ لو اس میں پورے دو لاکھ روپے ہیں یہ لو اور جاؤ یہاں سے آج سے تمہارا اور میرا رشتہ ختم میری بات سن کر ایک دم سے میرا پاؤں میں گر کر گرگرانے لگا تھا میں خوفزدہ سی ہو کر پیچھے ہٹی تھی وہ زار و قطار رو رہا تھا اس نے میرے سامنے ہاتھ باندھ لیے تھے وہ ایسے رو رہا تھا جیسے ایک چھوٹا بچہ بھیڑ میں اپنی ماں سے جدا ہو کر خوفزدہ ہو گیا ہو رو رہا ہو گھبرا رہا ہو اس کی حالت دیکھ کر میرا دل پسیج گیا میں بھی زمین پر اس کے پاس بیٹھ گئی بلاول بھائی کیا بات ہے اپ کو کیا ہو گیا ہے میری بات سن کر وہ پر امید نظروں سے مجھے تکنے لگا اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ نور مجھے میری ماں سے ملا دو
کون سی ماں میں حیران ہوئی تھی اس نے کہا تمہاری ہونے والی ساس میری ماں ہے میں اپنی ماں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں مجھے تم اپنے ساتھ لے چلو میری آرزو کو پورا ہو لینے دو اس کی بات سن کر مجھے دھجکا سا لگا کے کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ میرے شوہر کا بھائی ہو اگر وہ میری ساس کا ہی بیٹا ہے تو یوں جانا چاہتا ہے ہمارے گھر بے تحاشہ سوال اٹھ رہے تھے میرے ذہن میں جب وہ بولا تھا مجھے معلوم ہے کہ تم میری بات سن کر حیران ہو گئی ہو تم یہ بھی سوچ رہی ہوگی کہ اگر میں سچ کہہ رہا ہوں تو سیدھے طریقے سے کیوں نہیں چلا جاتا گھر میری مجبوری ہے نور بہن وہ اب بھی رو رہا تھا روتے روتے وہ مجھے اپنے داستانیں حیات سنانے لگا تھا میں جب پیدا ہوا تھا نا میری اماں خوش نہیں ہوئی تھی اس کو ڈھیروں وسوسوں نے ان گھیرا تھا تم خود سوچو کہ ایک لڑکی سسرال بیا کر جائے اور جلدی امید سے بھی ہو جائے تو وہ کتنی خوش ہوتی ہے اس کو لگتا ہے کہ آنے والا بچہ سسرال میں اس کے قدم مضبوط کر دے گا مگر میری پیدائش کے بعد میری اماں کے قدم مضبوط تو نہ ہوتے بلکہ وہ دھتکاری جاتی میری دادی میری اماں کو ایک منٹ میرے لیے بھی برداشت نہ کرتی عین ممکن تھا کہ میرا باپ ہسپتال کے بیڈ پر ہی میری اماں کو طلاق دے کر چلا جاتا حالانکہ اس میں قصور میری اماں کا تو نہیں تھا یہ تو اللہ کی مرضی تھی کہ اس نے مجھے نہ لڑکا بنایانہ لڑکی میرے لیے تیسری جنس کا انتخاب کیا بلاول بھائی کی باتیں سن کر میں سکتے میں آگئی تھی جبکہ اس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے جب نرس نے بتایا کہ تیرے گھر تیسری جنس کی پیدائش ہوئی ہے تو اماں نے نظروں ہی نظروں میں اسے التجا کر ڈالی
وہ بھی اماں کا دکھ سمجھ کر چپ ہو گئی اور ابو کو مبارکباد دی کہ آپ کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے سب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے ہر کوئی میری اماں کے آگے پیچھے ہو رہا تھا جب کہ وہ خاموشی سے کونے میں بیٹھی آنسو بہاتی جاتی تھی میں نے جب بھی اماں کو دیکھا وہ روتی رہتی تھی مجھے نہیں معلوم اس نے کیسے مجھے گھر والوں سے چھپا کر اتنا بڑا کیا تھا گھر میں کسی کو کچھ معلوم نہ ہو سکا تھا اماں مجھے لڑکوں والے کپڑے پہناتی تھی لڑکوں والے سکول میں ڈال دیا تھا لیکن مجھے لڑکے نہ بھاتے تھے میرا دل کرتا تھا کہ میں بلے سے نہیں بلکہ اپنی چھوٹی بہن رافیہ کے گڑیا سے کھیلوں مجھے اماں کی سرخیاں اچھی لگنے لگتی تھی ان کے زیور سب بہت اچھا لگتا تھا میری دادی نے اماں کو بلاکر کہا کہ دیکھ تیرا بلاول تو لڑکی بن گیا اس دن اماں مجھے بازو سے پکڑ کر کمرے میں لے گئی کمرے کا دروازہ بند کر کے مجھے ابو کی بیلٹ سے بہت مارا تھا میرا جسم نازک تھا میں چھ سال کا بچہ ہی تو تھا میرا ماس ادھر چکا تھا میں بہت چیخا تھا لیکن اماں کو مجھ پر رحم نہیں آیا تھا جب میرے جسم سے خون بہنے لگا تو ان کا ہاتھ رک گیا اب وہ مجھ سے بھی زیادہ رو رہی تھی دادی دروازہ بجائے لیکن اماں نے دروازہ نہ کھولا اور اپنا سر دیوار سے مار مار کر لہولہان کر چکی تھی ہم دونوں کو ہسپتال لے جایا گیا وہ میرے لیے تڑپ رہی تھی اور میں اپنی ماں کے لیے میں کتنے ہی دن اماں کی تکلیف کو یاد کر کے روتا رہا اور اماں تو ہر وقت ہاتھ جوڑ کر مجھ سے معافیاں مانگتی رہتی اس دن اماں نے مجھے سمجھایا کہ اگر میں نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو ابو مجھے ایسی جگہ چھوڑ آئیں گے جہاں ہر روز ایسی ہی مار پڑے گی اس دن کے بعد میں نے ایسا کرنے کے بارے میں سوچا نہیں کئی بار دل چاہا کئی سال بیت گئے اماں کی مار بھی بھول گئی لیکن جو سبق وہ ہر روز پڑھایا کرتی تھی میں وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا تھا
لیکن ایک دن میں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر ڈالی مجھے یاد ہے جب میں 10 سال کا ہوا تو ابو نے گھر ہی میں چھوٹی سی سالگرہ منانے کا سوچا اماں میرے لیے بہترین پینٹ شرٹ نکال کر رکھ گئی تھی لیکن میں نے رافیہ کی استری کی ہوئی فراک پہن لی اماں کی سرخی لگا کر جب میں باہر کیک کاٹنے کے لیے نکلا تو سب ہنس دیے تھے اماں بھی ہنسی میرے سر پر ہلکی سی چپیڑ لگا کر بولیں کہ تمہاری مذاق کی عادت پتہ نہیں کب جائے گی پھر وہ مجھے کمرے میں لے گئی مجھے دوبارہ تیار کرتے ہوئے وہ رو رہی تھی میں نے وجہ پوچھی تو بولی کہ تم نے بہت غلط کیا ہے اگلے دن اماں مجھے بازار لے گئے لیکن وہ بازار تو نہ تھا وہ مجھے دور ایک قصبے میں لے گئی گلیوں سے گزرتے ہوئے مجھے وہ ایک گھر میں لے گئی جہاں سب ہی تیسری جنس کے افراد تھے بات بات پر تالی پیٹتے تھے مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی تھی میں نے امی کا ہاتھ ہلا کر کہا اماں یہاں سے چلو میرا سانس گھٹ رہا ہے مگر وہ ایک بزرگ سے گرو کے پاس بیٹھ کر نہ جانے کیا باتیں کر کر کے رو رہی تھی گڑو نے مجھے اپنے پاس بلا کر کہا کہ آج سے میں تمہاری ماں ہوں میں نے اماں کا کندھا پھر سے ہلا کر کہا اماں اٹھو گھر چلیں میرا دل انجان نے خوف سے کانپ رہا تھا وہی ہوا جس کا ڈر تھا میری اماں باہر کی طرف چل پڑی میں ان کے پیچھے لٹکا تھا مجھے گروہ کے چیلوں نے پکڑ لیا میں چیختا چلاتا رہا اماں نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا تھا میرا ننھا سا دل کانپ رہا تھا میرا دل کیا کہ میں تمام مسجدوں کے سپیکر لے آؤں اماں کو آوازیں دوں وہ سن کر رک جائیں ہائے میں بہت بے بس تھا میرا کمزور سے بدن میں اتنا زور کہاں تھا کہ میں ان کے ہٹے کٹے چیلوں سے خود کو چھڑا لیتا میں ساری رات دھاڑیں مار مار کر روتا رہا گڑو مجھے پیار سے سمجھاتا رہا مگر میں سمجھنے کی عمر میں تو تھا نہیں صبح سویرے ہی اماں مجھ سے ملنے چلی آئی میں ان سے لپٹ کر ایک بات پھر بہت رویا اماں نے مجھے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا اور چلی گئی میرے کسی سوال کا جواب دیے بغیر وہ چپ ہی رہیں گرو مجھے پیار کرتا تو مجھے اس سے گھن آتی میں سب سے الگ تھلگ بیٹھا گھر والوں کو یاد کر کے روتا رہتا
ایک دن گروہ میرے پاس آکر بیٹھ گیا میں رو رہا تھا تو وہ بھی رونے لگا گرو نے مجھے بتایا تھا کہ میں انہی جیسا ہوں مجھے اب ان کے ساتھ ہی رہنا پڑے گا مجھے بہت غصہ آیا تھا مجھے یہاں آئے ہوئے ایک مہینہ ہو گیا تھا اماں نے مجھے بتایا تھا کہ سب مجھے یاد کر کے بہت روتے ہیں لیکن اماں نے ان سے جھوٹ بول رکھا تھا کہ میں گم ہو گیا ہوں مجھے اس دن پتہ چلا کہ اس سب کے پیچھے میری اماں ہی تھی وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنا ہی نہیں جاتی تھی میں نےسمجھوتا کرنا سیکھ لیا تھا اب میں اماں کو زچ کرنے کی کوشش کرتا گرو نے ڈانس سیکھنے کا کہا تو میں نے فورا ہامی بھر لی اب میں میک اپ کر کے اماں سے ملتا تھا تاکہ وہ غصے میں آ کر مجھے گھر لے چلیں مگر اماں کا دل نہ پگھلا گرو نے میرے فن کو تراش کر کے مجھے ہیرا بنا دیا تھا اب میں مکمل تیار ہو چکا تھا اماں ملنے آتی تو میں نہ ملتا پورے شہر میں میرا چرچا ہونے لگا تھا میں اب جوان ہو گیا تھا اور مزید حسین بھی میں نے خوب دولت کمائی میرا گرو بہت ضعیف ہو چکا تھا میں سارا سارا دن اس کی خدمت کرتا اس کے لیے ہر آسائش کا انتظام کیا گرو مجھے ہر وقت دعائیں دیتا رہتا ایک دن اس نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر کہا کہ میری خواہش ہے کہ تم قرآن سیکھو اس نے مجھے پتہ دیا کہ میں وہاں جاؤں اتنا کہہ کر وہ انتقال کر گیا نا چاہتے ہوئے بھی مجھے اس پتے پر جانا پڑا میں دروازے پر کھڑا تھا جب مجھے گھر کے اندر سے بہت ہی خوبصورت آواز میں قران پاک کی تلاوت سنی میں وہاں جم سا گیا پھر وہی آواز اس ایت کا ترجمہ پڑھنے لگی تھی ترجمے میں اللہ پاک اپنے گناہ گار بندوں سے وعدہ کر رہا تھا کہ اگر کوئی برائی سے پلٹ آئے اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے تو اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے اس آیت نے مجھ پر بڑا اثر کیا تھا
میں گھر آ کر روتا رہا اللہ سے معافی مانگتا رہا یوں میں نے قرآن کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی ڈانس وغیرہ چھوڑ دیا اپنا پیٹ پالنے کے لیے دہاڑی کرنے لگا تب مجھے روزانہ جن آنکھوں کا اور جس طرح کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا یہ میں ہی جانتا تھا تب مجھے اماں کی مجبوری سمجھ آئی اس کی بیٹی بھی جوان ہو رہی تھی بھلا تیسری جنس کے انسان کی بہن کو کون بیا تامیں نے اپنا سارا پیسہ جمع کر کے رکھا تھا تاکہ کسی ضرورت مند کے کام آ سکے تو مجھے ضرورت مند لگی اس لیے میں نے تمہیں دے دیا میں اپنی ماں سے ملنے کا شدید خواہش مند تھا میں ان کی خدمت کر کے خدا کو راضی کرنا چاہتا تھا ایک دن میں تم سے ملنے پارلر آیا تو میں نے وہاں اپنی ماں کو دیکھ لیا تھا پھر پتہ چلا کہ وہ تمہیں اپنے بیٹے یعنی میرے بھائی سے بیانا چاہتی ہیں تب ہی تو میں تمہارے پاس چلا آیا بلاول رو دیا تھا اور میں بھی روتی رہ گئی تھی امی جان اس کی باتیں سن کر میں خود کو روک نہیں پائی تھی کیا میں نے غلط کیا میری بہو مجھ سے سوال کر رہی تھی جبکہ میں تو زمین میں گھس گئی تھی میں بہو کے گلے لگ کر بڑا روئی تھی مجھے میرا ننھا سا بلاول بڑا یاد آیا تھا اس نے کیسی کیسی سختیاں جیلی تھی میں بھاگ کر اس کے کمرے میں گئی تو وہ اپنا سامان پیک کر کے بیٹھا تھا مجھے دیکھ کر میرے قدموں میں گر گیا میں نے اس کو اٹھایا اور اس کے اگے ہاتھ جوڑ کر اپنی ہر غلطی کا اعتراف کیا تھا میں نے گڑگڑا کر اس نے معافی مانگی تھی اس نے مجھے معاف کر دیا
Single-Payer System: The single-payer system, exemplified by countries like Canada and the United Kingdom, operates under a centralized authority that collects funds through taxation and covers healthcare costs for all residents. This model emphasizes universality and equity, offering comprehensive coverage with minimal out-of-pocket expenses. However, long wait times for non-emergency procedures and potential bureaucratic inefficiencies are notable drawbacks.
Multi-Payer System: Contrasting the single-payer approach, multi-payer systems, prevalent in countries like Germany and Switzerland, involve multiple insurance providers competing within a regulated framework. Citizens typically have the freedom to choose their insurer and benefit from a wide range of services. The multi-payer model fosters innovation and responsiveness to consumer preferences but may exacerbate disparities in access and affordability for low-income individuals.
Mandatory Health Insurance: Countries like the Netherlands and Japan have implemented mandatory health insurance schemes, where every citizen is obligated to enroll in a private or public insurance plan. This model promotes risk pooling and cost-sharing among the entire population, ensuring broad coverage and financial sustainability. However, enforcement mechanisms and affordability concerns for marginalized groups remain significant challenges.
Hybrid Models: Some nations adopt hybrid health insurance models, blending elements of both single-payer and multi-payer systems. For instance, France combines a universal public insurance system with supplementary private insurance options to accommodate diverse healthcare needs. Hybrid models seek to strike a balance between government intervention and market dynamics, aiming for optimal coverage, efficiency, and quality of care.
Challenges and Opportunities: Despite their differences, all health insurance models face common challenges, including rising healthcare costs, aging populations, and evolving disease patterns. Moreover, the COVID-19 pandemic has underscored the importance of resilience and adaptability in healthcare systems worldwide. Innovative solutions such as telemedicine, preventive care initiatives, and value-based payment models offer promising avenues for enhancing the sustainability and effectiveness of health insurance.
Conclusion: In conclusion, the landscape of health insurance models is diverse and dynamic, reflecting the complex interplay of socio-economic, political, and cultural factors. While no model is perfect, each presents valuable lessons and insights for policymakers seeking to improve healthcare accessibility, affordability, and quality. By embracing innovation, collaboration, and evidence-based policymaking, nations can navigate the evolving healthcare landscape and build resilient, inclusive health insurance systems for the benefit of all citizens.